عید الفطر کا چاند غائب کردو - وانیہ اور آمنہ کی کہانیاں
عید الفطر کا چاند غائب کردو -
بچوں کے لۓ مزیدار اردو کہانی
وانیہ اور آمنہ کی کہانیاں
مصنفہ: صائمہ ندیم
'کسی کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ کیا ہو رہا تھا- رمضان کا آخری ہفتہ شروع ہوتے ہی کوئ شخص عید الفطر یعنی چھوٹی عید کی تیاریوں کو برباد کرنے کی کوشش کر رہا تھا- پہلے تو اچانک پورے ملک کے بینک کسی نے ہیک کر لۓ تاکہ لوگوں کو عید سے پہلے تنخواہ نہ مل پاۓ اور وہ عید کی خریداری نہ کر پایئں- حکومت نے مشکل سے اس مسئلے پر کچھ قابو پایا توعید سے ایک روز پہلے پورے ملک کے پٹرول پمپ کا نظام ہی بیٹھ گیا- عید کرنے دوسرے شہروں کو جانے والے لوگ راستے میں ہی پھنس گۓ- عید کے لۓ فراہم ہونے والا سامان بازاروں تک نہ پہنچ سکا- بازاروں میں گوشت، سبزی اور مصالحہ جات کی قلت ہوگئ- سب لوگ بہت پریشان تھے-وانیہ اور آمنہ بھی مشکل سے عید سے ایک دن پہلے اپنی دادا جان کے گھر پہنچ پائیں تھیں- وہاں بھی سب ہی اس صورتحال سے پریشان تھے-
'ہم کل راستے میں تھے تو اچانک پورے ملک کے پٹرول پمپ کا نظام بیٹھ گیا- ہم لوگوں نے افطار بھی راستے میں کیا- آمنہ نے بھی بہت زیادہ تنگ کیا- وہ بہت تھک گئ تھی- وہ تو شکر ہے کہ عید کا چاند نظر نہیں آیا ورنہ تو ہم وقت پر پہنچ بھی نہ پاتے،' وانیہ نے اپنی کزن عشل کو بتایا-
'اورایسا بار بار ہو رہا ہے- اب بھی بہت سے لوگ راستے میں پھنسے ہوۓ ہیں،' اریبہ بولی-
' یہاں تو سارے بازاروں کی بجلی بند ہو گئ تھی- پٹرول نہ ہونے کی وجہ سےدکان دار جنریٹر بھی نہ چلا پاۓ۔ میں بھی ماما کے ساتھ عید کے کپڑے لینےبازار گئ تھی لیکن ایسے ہی واپس آگئ- درزی بھی بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پریشان تھے- ماما کے کپڑے بھی نہیں ملے-اگر شام کو حلات بہتر ہوۓ تو دوبارہ جائیں گے اور عید کا چاند بھی دیکھیں گے- آج تو نظر آہی جاۓ گا،' عشل نے بتایا-
'ہاں، لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ کل عید کا چاند پوری دنیا میں نظر نہیں آیا حلانکہ سائنس دانوں کے مطابق چاند کی عمر کے حساب سے چاند نظر آنے کے بہت زیادہ آثار تھے،'
'بلکہ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ کسی نے عید کے چاند کو آسمان سے غائب کر دیا ہے- عید کے چاند کو اغوا کر لیا گیا ہے،' حذیفہ بھائ اور حسان بھی ان کی باتیں سن کر وہاں آگۓ تھے- کبھی بجلی اور کبھی انٹر نیٹ بند ہونے کی وجہ سے وہ گیمز بھی نہیں کھیل پا رہے تھے اور اب روزے اور غصے کی وجہ سے ان کا برا حال تھا-
'کیا اِدھر اُدھر کی ہانک رہے ہو- شکر کرو کہ ہمیں ایک اور روزہ ملا- جاؤ سب جا کر ؑعصر کی نماز پڑھو اور پھر قرآن کی تلاوت کرو،' دادا ابو نے سب کو ڈانٹ پلائ تو سب نماز پڑھ کر چھت پر آگۓ-
'کوئ تو ہے جو ہماری عید خراب کرنا چاہتا ہے- ہماری حکومت اس شخص کو ڈھونڈ رہی ہے لیکن ابھی تک پتہ نہیں چلا- ایک دفعہ وہ مجھے مل جاۓ تو میں اسے چھوڑوں گا نہیں،' حزیفہ بھائ ہاتھ میں بیٹ پکڑے آسمان کو دیکھتے بولے-
'نفرت ہے مجھے عید کے دن سے، عید کی تیاریوں سے اور عید کی خوشی سے ـ زہر لگتے ہیں مجھے یہ ہنستے کھیلتے اور عید کی خریداری کرتے لوگ- میرا دل چاہتا ہے کہ سارے بازار بند کردوں یا عید کی خریداری پر پانبدی لگا دوں- سب کی عید اداس گزرے بالکل اس طرح جیسے میری بچپن کی عیدیں گزریں- اس دفعہ میں ایسا منصوبہ بناؤں گا کہ کسی کی عید خوشی خوشی نہیں گزرے گی ،' فرید نے اپنی کمپیوٹر سکرین پر دیکھتے ہوۓ سوچا- اس نے ملک کے سیکیورٹی کیمروں اور بہت سے نظاموں کو ہیک کیا ہوا تھا اور اب وہ شہر کی سارے بازاروں اور راستوں کو اپنے کمپیوٹر کی سکرین پر دیکھ کر خوش ہورہا تھا-
'اورعید کا چاند وہ تو آسمان پر ہے ہی نہیں تو نظر کیسے آۓ گا،' وہ قہقہے لگانے لگا-
'۔۔۔ نہ عید کا چاند ہوگا، نہ بازار سے سودا ملے گا اور نہ ہی کوئ دعوتیں اڑائیں جائیں گی۔۔۔۔ اُداس عید۔۔۔اکیلی عید۔۔۔ سب کو مبارک!' وہ قہقہے لگاتے ہوۓ شیشے کے بڑی سی ٹیوب ک پاس آیا جہاں پہلی شوال کا نازک اور باریک سا چاند قید تھا- شوال کا پہلی رات کاچاند مسلسل باہر آنے کی کوشش کر رہا تھا-
'نہیں ملا، کسی دکان سے گوشت، سویاں اوردوسرا سامان- کہیں پٹرول پمپ بند ہیں اور چیزیں بازار نہیں پہنچ پارہیں اور زیادہ تر اے ٹی ایم مشینیں تو ایک ہفتے سےکام نہیں کر رہیں اور لوگوں کے پاس پیسے ہی نہیں- آج آخری دن ہے- کل تو عید کا چاند نظر نہیں آیا لیکن اب کل تو ہر صورت عید ہوگی- لوگ ساری صورتحال سے بہت پریشان ہیں-عید کی کوئ تیاری نہیں کر پارہے،' بابا نے باہر سے آکر بتایا-
'' اب کیا ہو گا ہم نے تو عید کے دن پورے خاندان کی دعوت کی ہوئ ہے،' ماما نے پریشان ہوتے ہوۓ کہا-
'سنو کل تم جلدی آنا- اب کل بہت کام ہو گا- امید ہے کہ رات تک مسئلہ حل ہو جاۓ گا-،' ماما ماسی کو دیکھتے ہوۓ بولیں-
'باجی میرے بچے میرے بغیر اداس ہو جاتے ہیں- عید کا سارا دن یہیں گزر جاتا ہے- ان کو بھی ساتھ لے آؤں،'
'نہیں بھئ میں تمہیں جلدی فارغ کر دوں گی اور کھانا وغیرہ بھی لے جانا- پہلے ہی اتنے مہمان ہوں گے اور پھر تمہارے بچے۔۔۔اور ہاں عیدی بھی کل ہی ملے گی،' ماما نے ماسی کو کھڑے دیکھ کر کہا تو چپ چاپ گھر سے نکل گئ-
'کچھ سامان تو ہے فریج میں لیکن عید کی شاندار دعوت کے لۓ کافی نہ ہو گا اور ویسے بھی دعوت کی چیزیں تو آخر تک آتی رہیتی ہیں- اللہ کرے کہ مسئلہ حل ہو جاۓ اس سال تو کوئ عید خراب کرنے پر تلا ہوا ہے،' ماما نے سوچتے ہوۓ کہا-
'چھکا،' اوپر سے بچوں کے کھیلنے کی آوازیں آرہی تھیں-
'اف کتنا شور ہے اوپر۔۔۔یہ بچے بھی نہ۔۔۔،' چاچی بولیں-
'اور ہاں مجھے آج بھی بینک سے عیدی کے لۓ نۓ نوٹ نہیں مل سکے- ہو سکتا ہے بچوں کو پرانے نوٹ ہی دینے پڑیں گے- میرے بچے تو پرانے نوٹ لے کر اُداس ہو جائیں گے،' چاچو نے سوچتے ہوۓبتایا-
'اتنا بے تاب نہ ہو میرے دوست، ایک دو گھنٹے میں تمہیں آزاد کردوں گا- سال کے اس وقت تمہیں آسمان پر دیکھ کر لوگ حد سے زیادہ ہی خوش ہوجاتے ہیں اور میں یہ نہیں چاہتا،' فرید نے شیشے کی ٹیوب کو ہاتھ لگایا-
'اور چاند دیکھے بغیر تو سب کی عید کی خوشی ادھوری رہ جاۓ گی- بس شام ہونے والی ہے اور پھر خالی آسمان ہوگا اور میری خوشی،' وہ خوشی سے جھومنے لگا- باہر شور سن کر وہ بالکنی میں آگیا-
سامنے والے گھر میں تو کافی زیادہ گہما گہمی تھی- بچوں کا شور باہر تک سنائ دے رہا تھا- یامین صاحب کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں جمع تھے-
'لگتا ہے ان کا بڑا بیٹا اپنے بچوں کے ساتھ دوسرے شہر سے عید کرنے آگیا ہے اسی لۓ تو سب خوش ہیں-
کوئ فائدہ نہیں ہوا- میں کچھ بھی کر لوں عید کو اُداس نہیں کر سکتا-اداس عیدیں تو صرف میری قسمت میں تھیں- صرف میری قسمت میں ہیں،' وہ سوچ رہا تھا-
"آہ یہ رمضان بھی رخصت ہونے کو ہے- رمضان کے مہینے میں کتنی خوشی اور سرور ہوتا ہے- عبادات، صدقات اور نیکیوں کو جمع کرنے کا مقابلہ ہوتا ہے،' دو دوست باتیں کرتے گلی سے گزرے-
"جھوٹ ۔۔۔ سب جھوٹ ہے- کوئ بھی دل سے نیکی کرنے کی کوشش نہیں کرتا- سب نیکی سے جان چھڑاتے ہیں- یہ لوگ تو حقدار کو اس کا حق بھی نہیں دیتے تو صدقہ کرنے کا کیا فائدہ،' فرید نے آنکھیں بند کر لیں-
'پیسے ۔۔۔کونسے پیسے۔۔۔ جاو یہاں سے،'
'استاد میں نے سکول سے آکر تین گاڑیوں پر کام کیا ہے- افطار بھی نہیں کی- عید پر سب لوگوں نے عید کرنے جانا ہوتا ہے تو وہ گاڑی کا کام کرواتے ہیں اورتم نے کہا تھا کہ تم مجھے الگ سے پیسے دو گے زیادہ کام کے،'
'جاؤ یہاں سے نہیں ہیں کوئ پیسے میرے پاس۔۔۔،'
'لیکن۔۔۔،'
جانتے ہو یا۔۔۔ ،'استاد نے اسے مارنے کے لۓ پانا اٹھایا تو وہ تیزی سے گھر بھاگ آیا تھا-
'آؤٹ۔۔۔۔آؤٹ۔۔۔،' سامنے کی چھت پر شور تیز ہو گیا تھا اور اس کا غصہ بھی-
تب شور سن کر ساتھ والی چھت پر ایک سات سال کا بچہ اپنی بہن کے ساتھ اوپر آکر ضد کرنے لگا- اس کے ہاتھ میں ایک بہت مہنگا فٹبال تھا- ان بچوں کے پیچھے ایک گیارہ بارہ سال کی بچی تھی جو کہ ان کی کام والی تھی-
'تم عید کرنے اپنے گھرنہیں گئ!' اریبہ نے اس بچی کو دیکھ کر پوچھا-
'باجی کہہ رہی تھیں کہ عید پر بہت کام ہوتا ہے تم بعد میں چلی جانا،' اساسی اس بچی کی آواز اور آنکھوں سے چھلک رہی تھی-
'آ آ۔۔۔۔آ۔۔۔،' فٹبال زار سے آکر اس کام والی کے سر میں لگا تھا-
'مزہ آیا۔۔۔ماما نے تمہیں منع کیا تھا کہ تم کسی سے بات نہیں کرو گی-' اب وہ بچہ اور اس کی بہن ہنس رہے تھے-
'سدرہ نیچے آؤ- افطار بناؤ،' وہ بچی چپ چاپ سر پکڑے نیچے چلی گئ-
'بہت ہی بدتمیز ہیں ان کے بچے اور آنٹی کہتی ہیں کہ کام والیوں نے میرے بچوں کو بد تمیز کیا ہے،' اریبہ افسوس کرتے ہوۓ بولی-
'لگتا ہے بہت جلدی ان کی یہ کام والی بھی بھاگ جاۓ گی،' عشل سوچتے ہوۓ بولی-
فرید دور اپنی بالکنی سے یہ سب دیکھ رہا تھا- تکلیف، دکھ، افسوس۔، انتقام۔۔۔ اس کے وجود میں بھر گۓ تھے- وہ تیزی سے اندر آیا اور عید کے چاند کی ٹیوب کو تنگ کرنے لگا- چاند چھوٹا اور بے شکل ہو رہا تھا- اب وہ ایک ہلال کی بجاۓ سیدھا ہو رہا تھا- اس کی گول شکل بگڑ رہی تھی- فرید اپنا غصہ چاند پر اتار رہا تھا-
'میں بھی عید پر نۓ کپڑے لوں گا،'
'یہ نۓ تو ہیں- باجی کے بیٹے نے صرف ایک بار پہنے ہیں،'
'جھوٹ بول رہی ہیں آپ- یہ دیکھو اس کے کالر کتنے پھٹے ہوۓ ہیں اور رنگ بھی اترا ہوا ہے،'
اچھا یہ دیکھ لو- یہ بہت مہنگی دکان سے لیا تھا باجی نے- وہ کیا کہتے ہیں برانڈڈ ہے- بالکل نیا ہے- بس کیا بتاؤں ان کے بیٹے کو یہ کالی پٹی پسند نہیں آئ گلے پر اور اس نے پہنا ہی نہیں،'
'مجھے بھی پسند نہیں یہ کالے پٹی اور یہ مجھے کھلا بھی ہے- مجھے بس نیا سوٹ چاہیے- اپنا سوٹ،' وہ رونے لگا-
'میں کہاں سے لاؤں نیا سوٹ – جانتے بھی کتنی مشکل سے میں اور تم پانچ بہن بھایئوں کا پیٹ پالتی ہوں- تمہارے استاد نے بھی تو نہیں دیۓ کوئ پیسے- تمہارے باپ کو کوئ پرواہ ہی نہیں،' اماں رونے لگیں تھیں-
'اچھا رو نہیں میں پہن لوں گا یہ لیکن جوتے نۓ لوں گا،؛
'میں نے باجی سے کہا تو ہے کہ کوئ جوتے۔۔۔اچھا ٹھیک ہے اگر باجی نے عید سے پہلے پیسے دے دیے تو میں لے دوں گی تمہیں نۓ جوتے- ،' امی نے اسے پیار کیا-
'بلکہ عید کے بعد لے دوں گی- باجی عید والے پیسے عید کے دن ہی دیں گی نہ- باجی نے یتیم خانے کے بچوں کو بھی دینے ہوتے ہیں کپڑے اور جوتے- زکوۃ اور صدقات الگ ہیں- ان کا ہاتھ تنگ ہے ،' اماں سوچتے ہوۓ بو لیں-
'اماں تم عید کے دن کام پر نہ جانا میں اُداس ہوتا ہوں،' وہ بولا تھا-
'میری جان۔۔۔میں جلدی آجاؤں گی پھر ہم باہر جایئں گے گھومنے،' اماں نے اسے پیار کیا تھا- وہ جانتا تھا کہ ایسا نہیں ہوگا- اماں شام کو تھکی ہوئ آتی تھیں اور پھر ان میں کہیں جانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی-
وہ پرانے کپڑے پہن کر وہ ساراعید کا سارا دن وہ اماں کا انتظار کرتا تھا- اور شام کو اماں اسے عیدی کے طور پر چند پرانے نوٹ دیتی تھیں جو باجی نے انھیں دیے ہوتے تھے- پتہ نہیں کیوں اسے ان نوٹؤن سے نفرت تھی- اسے ان میں لوگوں کی بے حسی اور اپنی ماں کی مجبوری نظر آتی تھی-
'پریشان نہ ہوا کر میرے لعل- بس تو بہت محنت کر- پڑھائ کر پھر ہم بہت سی عیدیں مل کر منائیں گے،' اماں اسے سینے سے لگا لیتی تھیں-
پھر ایک دن ایسے ہی محنت کرتے اس کی ماں مر گئ اور پھر اسے کسی نے اسے اس سال پرانے نوٹؤں کی عیدی بھی نہ دی-
اب اس کا دل نہ تو پڑھائ میں لگتا تھا اور نہ ہی ورکشاپ پر- وہ ایک دس سال کا بچہ ہی تو تھا- اکیلے کیسے س کر پاتا- ایک دن اس کے استاد نے اسے بہت مارا- وہ جانتا تھا کہ گھر گیا تو باپ سے مار پڑے گی- اس لۓ وہ وہاں سے بھاگ گیا-
پتہ نہیں وہ کب تک بھاگتا رہا کہ کسی نے اسے پکڑ لیا- وہ کوئ نیک آدمی تھا- اس نے کچھ پوچھ کچھ کے بعد اسے یتیم خانے میں داخل کروادیا-
اب ہر عید پر بہت سے صاحب حیثیت لوگ آکر یتیم بچوں میں نۓ کپڑے اور جوتے بانٹتے اور وہ ان کپڑوں میں اپنی ماں کو ڈھونڈتا رہتا-اس نے اپنی ماں کی خواہش کے مطابق پڑھ لکھ تو لیا لیکن وہ
کبھی بھی اپنی اُداس عیدوں کو اور اس کی بے بسی کو نہ بھلا سکا-
اس نے چاند کی ٹیوب کو زور سے کس دیا کیونکہ افطار کا وقت قریب آتے ہی چاند میں جیسے طاقت آرہی تھی اور وہ آزاد ہونے کی کوشش کر رہا تھا-
'گیند پھینکو کیا کر رہی ہو؟' حذیفہ بھائ نے آواز لگائ-
'میں عید کاچاند دیکھنے کی کوشش کر رہی ہوں،' عشل بولی-
'کہاں ہے عید کا چاند مجھے بھی دکھائیں،' آمنہ بھی عشل کے قریب آگئ-
'اتنا بھی نہیں پتہ کہ عید کا چاند مغرب کی نماز کے فورا بعد نظر آتا ہے،' حسان بولا-
پتہ ہے ۔۔۔ میں ویسے ہی دیکھ رہی تھی،'
'افطار کے بعد آئیں گے بس دعا کرو کہ بادل نہ آئیں،' وانیہ بھی آسمان کی طرف دیکھنے لگی- ادھر عشل نے گیند کروائ-
حذیفہ بھائ نے پہلی ہی گیند پر چھکا مارا اور گیند اڑتی ہوئ گلی کے پار ایک گھر کے لان میں جا گری- سب بچوں نے چھت سے جھانکا تو پریشان ہو گۓ-
'یہ انکل تو بہت سخت ہیں کبھی گیند نہیں دیں گے،'
اور مجھے تو بہت عجیب سے بھی لگتے ہیں- عجیب سی مشینیں ہیں ان کے گھر،'
'نیچے گۓ تو دادا ابو پھر پیچھے پڑ جائیں گے اس سے بہتر ہے گیند ہی لے آتے ہیں،' حسان بولا-
'کون جاۓ گا؟'
'پہلے میں، عشل اور اریبہ جاتے ہیں- اگر وہ گیند نہیں دیں گے تو تم دونوں جانا،' وانیہ بولی- وہ سب نیچے گلی میں آگۓ-
رمظان کا بابرکت مہینہ اپنی تمام لذتوں اور رعنایوں کے بعد ختم ہونے والا تھا- جہاں اس مہینے کے جانے کی اداسی تھے وہیں عید کی عجیب سی خوشی تھی اور کیوں نہ ہوتی کیونکہ عید کا دن تو روزہ داروں کے لۓ انعام ہے اللہ کی طرف سے-
وانیہ نے ڈرتے ڈرتے گھر کی گھنٹی بجائ- گھر سے کوئ نہ آیا- کافی انتظار کے بعد جب کوئ باہر نہ آیا تو حسان نے دیوار سے جھانکا تو سامنے لان میں گیند پڑی تھی-
لیکن صرف گیند ہی نہیں حسان کو کمرے کی کھڑکی سے کچھ ؑعجیب سا بھی نظر آیا تھا- کوئ عجیب سی روشنی تھی جو کمرے کے پردوں سے باہر آرہی تھی- کچھ تو عجیب تھا وہاں،' حسان تجسس میں اندر کود گیا-
سب بچے حسان کی اس حکت پر حیران رہ گے- حسان نے کھڑکی سے اندر جھانکا تو جو اس نے دیکھا وہ ناقابل یقین تھا ایک بڑی سی ٹیوب میں عید کا چاند بند تھا- کمرے میں کمپیوٹر اور تاروں کا جال بچھا تھا- تب ہی فرید کی نظر حسان پر پڑی- اس نے کمرے میں پھیلی چاند کی کشش کی وجہ سے حسان کو اندر کھینچ لیا اور اسے بھی ایک ٹیوب میں بند کر دیا-
جب کچھ دیر حسان باہر نہ آیا تو باقی سب بھی بچے اس کی مدد کرنے اندر آگۓ- حسان کو بند دیکھ کر سب پریشان ہو گۓ-
وانیہ کو کچھ سمجھ نہ آئ تو اس نے ہاتھ میں پکڑی گیند اٹھا کر ایک کمپئوٹر پر دے ماری- فرید کا دھیان ہٹتے ہی اریبہ نے کمرے میں رکھے جنریٹر کو بند کردیا جس وجہ سے سب سسٹم بند ہوگۓ- حذیفہ بھائ نے آگے بڑھ کر فرید کو ایک کک لگائ اور وہ دور جا گرا-
حسان بھی آزاد ہو گیا تھا- وہ سب فرید کو باندھنا چاہتے تھے جب فرید نے ایک بار پھر سارے سسٹم چلانے کی کوشش کی- اب جیسے سب بچے ہی وہاں قید ہونے والے تھے-
'رک جاؤ،' اچانک ایک بہت ہی خوبصورت آواز نے انھیں مسحور کر دیا- سب نے پلٹ کر دیکھا تو وہ چمکتا ہو، روشن اور سفید عید کا چاند یعنی ہلال تھا- جو اب کمرے کے اندر تھا-
'اے رب کائنات تمام مسلمانوں کے گناہ معاف فرما دے اور ان کے روزوں اور عبادات کو قبول فرما- افطار کا وقت قریب ہے اور یہ دعا کا وقت ہے، مانگنے کا وقت ہے- مانگ لو جو مانگنا ہے- اس کی رحمت کے دروازے کھلے ہیں،' چاند شفقت سے بولا-
تمام بچوں نے دعا کے لۓ ہاتھ اٹھا لۓ- بہت ہی خبصورت احساس تھا ہر طرف-
وہ سب حیرت میں تھے کہ ہلال ہوا میں تیرتا ہوا فرید کے پاس آیا اور اس کے سر پر چھوا-
'میں جانتا ہوں کہ تم نے ایک تکلیف دہ بچپن گزارہ- تم نے بہت مشکلات جھیلیں لیکن تمہارے لۓ بہت سی دعائیں چھوڑیں جو آج بھی تمہارے ساتھ ہیں- تمہاری ماں کبھی نہیں چاہتی تھی کہ تم ایسے بنو- بلکہ وہ چاہتی تھی کہ تم ایک کامیاب انسان بنو اور ان لوگوں کی آواز بنو جن کی کوئ نہیں سنتا- جو آج بھی معاشرے کی زیادتی اور بے حسی کا شکار ہیں- میں جانتا ہوں کہ تم یہ سب کر سکتے ہو- میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہیں سکون دے اور سیدھا رستہ دکھاۓ- آمین،' جیسے عید کےچاند کی دعا تو مکمل ہونے سے پہلے ہی قبول ہو گئ تھی- فرید فرش پر بیٹھ کر زاروقطار رونے لگا اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگا کہ اس کی وجہ سے کتنے لوگ پریشان ہوۓ تھے- افطار کا وقت ہو گیا تھا- بابا ان کو تلاش کرتے باہر آۓ تھے- ان کے ہاتھ میں فرید کے لۓ افطار کی چیزوں سے بھرا تھال بھی تھا- عید کا چاند مسکراتا ہوا کھڑکی سے باہر نکل گیا-سب بچے بھی گھر آگۓ اور افطار کرنے لگے-
اب عید کا چاند آسمان پر مسکرا رہا تھا اور لوگ خوشی خوشی عید کی شاپنگ کر رہے تھے-
بچے خوش تھے کہ انھوں نے عید کے چاند اورعید الفطر کو بچا لیا تھا-
سب خوش تھے لیکن فرید کوئ بہت ضروری کام کر رہا تھا- اس نے چند دن بعد حکومت سے گھریلو ملازمین کے حقوق اور چھوٹے بچوں کے کام کے قوانین پاس کروالۓ تھے- لوگوں کی بے حسی کو جنجھوڑڈالا تھا- بچوں پر زیادتی کرنے والوں کے خلاف سخت سزائیں رکھوایئں تھیں- اب وہ ایسے کئ لوگوں کی آواز تھا- اس کے خیراتی اور فلاحی ادارے ہر طرف لوگوں کی مدد کر رہے تھے- اب اس کی عیدیں پر سکون تھیں اور وہ اس کوشش میں تھا کہ کسی بچے کی عید اداس نہ ہو-
اور ہاں وانیہ، آمنہ اور ان کے کزن اس نیک کام میں فرید کے ساتھی تھے-
Comments
Post a Comment